بانیان ساحل” کراچی

(اپریل (۱۹۹۵)

حارث خلیق

صحافت پابند سلاسل

انگریزی اور اردو اخبارات و رسائل کے مزاج ایک عمومی زادہ روی اور تحریک آزادی میں صحافت کے کردار کا جائزہ لیا کیا ہے۔ لیکن اس باب میں ” جناح اور صحافت ” کے زیر عنوان تھے میں یہاں قائد اعظم کے پریس کی آزادی سے متعلق خیالات کاذکر ہے، میں اس واقعہ کی کمی پوری نقصا ، رج کی گئی ہے جب کہ اعظم کی کتے نے کاروں مریم کو منہ کرنے کا کوشش کی گئی۔ یہ پاکستان کی مستقل اور مشاور املامت کا پہلا قدم تھا جو اس سلسلے میں ہے۔ ان ہی کے قائد اعظم کے الفاظ اس کے مفادات سے متصادم نہ کیا۔ چنانچہ “وان” اخبار کے دفتر فون کرے ایک ذمہ دار افسر نے کہا کہ قائد اعظم دارا کی تقریر کا وہ حصہ حذف کر دیا جائے جس سے پاکستان کے بارے میں ان کی اس رائے کا اظہار ہوتا ہے کہ اسے ایک جدید سیکیولر ملک ہونا چاہئے۔

دیگر چار ابواب میں پاکستان کے ابتدائی نیم جمهوری دور کے گیارہ برس کا حال ایونی آمریت کے دوران نافذ کئے جانے والے کالے قوانین، بھٹو کے دور حکومت میں اٹھائے جانے والے جابرانہ اقدامات اور ضیاء الحق کے زمانے میں عائد کی جانے والی بد ترین پابندیاں اور صحافیوں پر مظالم کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف حقائق سے پردہ اٹھاتی ہے بلکہ تمام اہم پریس ایڈوانسوں پریس قوانین اور قابل ذکر افراد کے کردار کو ایک جگہ اور مضبوط انداز میں پیش کرنے کا فریضہ بھی ادا کرتی ہے۔ ان افراد میں جہاں نڈر اور بیباک صحافی شامل ہیں وہیں اخباری صنعت یا صحافت کے پیشے سے وابستہ وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اپنے مفادات کی خاطر یا خوف کے تحت پریس کی تابعداری کو قبول کیا بلکہ بعض اوقات اسے یقینی بنایا۔

صحافت پابند سلاسل میں شامل پہلا ضمیمہ 1970ء میں چلتے والی تحریک ہجرت” کے عنوان سے ہے۔ اس میں پان اسلام ازم (Pan Talamism) اور دیگر تاریخی حالات اور شخصیات کا تذکرہ ہے۔ دوسرا ضمیمہ وہ مشترکہ اداریہ ہے جس کی بیک وقت سولہ اخبارات میں اشاعت پاکستانی پریس کی اندرونی و کمزوریوں اور عاقبت نا اندیشی کی ایک محمدہ مثال ہے۔ یہ سول باقی ست

چونکہ یہ ایک دلچسپ مگر بنیادی طور پر وضوعاتی کتاب ہے اس لئے صحافت کی کچھ مخصوص تراکیب استعمال کی گئی ہیں۔ لیکن ان تراکیب سے نا آشنا قاری کو بھی کہیں کسی وقت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ بلکہ اس کتاب کا مطالعہ اخباری صنعت اور اپنے صحافت کے پیشے سے متعلق ایک عام قاری کی علومات میں خاطر خواہ اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔

“صحافت پابند سلاسل ” ۱۹۴۷ء سے نیاء دور تک پاکستان میں اخبارات و رسائل پر لگائی جانے والی پابندیوں اور اخبار نویسوں کے خلاف کی جانے والی تادیبی کارروائیوں کا ایک مستند ریکارڈ نے ریکارڈ ہے۔ اس کتاب کی سب سے اہم موصیت یہ ہے کہ ہ ہے کہ اس میں کوئی بات بغیر ماخذ یا حوالے کے درج نہیں کی گئی ہے۔ ایک طرف جہاں یہ پوری بیباکی کے ساتھ مختلف حکومتوں کے جابرانہ ہتھکنڈوں کی تفصیل بیان کرتی ہے وہیں دوسری طرف بعض نام نہاد معتیر افراد کے اعمال و افعال کو بھی تاریخ میں محفوظ کر دیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ پاکستان کی شرمناک سیاسی تاریخ کا تذکرہ بھی ساتھ ساتھ چلتا ہے جو کسی بھی حساس اور باشعور ساتھ ساتھ چلتا ہے جو کسی بھی حساس اور باشعور پڑھنے والے کو خون کے آنسو رلانے کے لئے کافی ہے۔

صحافت پابند سلا پانچ ابواب کتابیات کی فہرست جن سے استفادہ کیا گیا ایک انتہائی جامع اشاریہ مختلف ادوار میں معتوب اخبارات کی فہرست دوستوں اور ساتھیوں کے تعاون کے اعتراف اور تین خصوصی میموں پر مشتمل ہے۔ ہے۔ پیش لفظ مصنف کا اپنا لکھا ہوا ہے جس میں کتاب کی فرض و غایت بیان کی گئی ہے۔ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ کتاب مصنف کی میں برس پر محیط محنت شاقہ کا نتیجہ ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب ضمیر نیازی نے ۱۹۶۵ء میں پریس ایڈوائس اور تمام اہم خبریں جمع کرنا شروع کیں۔ ۱۹۷۱ء میں انہیں شدید صدمہ پہنچا جب ان کی فائل پر اسرار طور پر غائب ہوگئی۔ چھ برس کی محنت خاک میں مل گئی۔ لیکن ضمیر نیازی بہت ہارنے | والے نہیں۔ انہوں نے دوبارہ اس تندمی سے تمام ضروری معلومات یکجا کرنی شروع کر دیں۔

ممتاز حق کو صحافی اور دانشور ضمیر نیازی کی کتاب ” پریس ان چینز (press in chains) ۱۹۸۷ء میں کراچی پریس کلب نے پہلی بار شائع کی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان بد ترین آمرانہ دور سے گزر رہا تھا۔ اس جرات مندانہ قدم کے لئے کتاب کے مصنف اور ناشر دونوں لائق تحسین ہیں۔ اب تک اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور یہ بھارت میں بھی چھپ چکی ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں جگہ یہ کتاب صحافیوں اور علمی حلقوں میں بہت مقبول ہوئی ہے۔ لیکن چونکہ بنیادی طور پر انگریزی میں لکھی گئی اس لئے اردو جاننے والے وسیع تر حلقے تک نہ پہنچ سکی۔ اردو زبان میں طبع زاد علمی و تحقیقی کام کے ساتھ ساتھ اعلی پائے کے ترجموں کی بھی شدید ضرورت | ہے۔ اور پھر پریس ان جملو ” جیسی کتاب کا زیادہت زیادہ لوگوں تک پہنچنا پاکستان کے بے خبر سماج میں شعور و آگھی میں

اضافے کا لازمی سبب بنے گا۔

اجمل کمال نے اس کتاب سے ترکے کی ضرورت کو محسوس کیا اور نہ صرف اسے اردو میں منتقل کرنے وا پیرا خرید بلکه سباعت و اشاعت کی تمام تر ذمہ داری بھی اپنے سر لیا۔ یوں جنوری ۱۹۹۴ء میں صحافت پابند سلاسل منظر عام پر آئی یہ کتاب “آج” کے ادارے ادارے کے تحت شائع ہوئی ہے۔ “آج” آج کے نام سے ایک انتہائی وقیع ادبی جریدہ بھی اجمل کمال کے زیر ادارت شائع ہوتا ہے۔ اجمل کمال ان معدودے چند لوگوں میں سے ہیں جو اس جمل دوست معاشرے میں اردو زبان و ادب کی خدمت پر تلے ہوئے ہیں۔

Press in chains کا اردو ترجمہ “صحافت پابند سلاسل ” نہایت سادہ اور رواں زبان میں ہے۔ مترجم نے کتاب کے ساتھ مکمل انصاف کیا ہے اور بعض انگریزی الفاظ و تراکیب کو غیر ضروری طور پر عربی یا فارسی آمیز زبان میں ترجمہ ترجمہ کرنے سے احتراز کیا ہے۔ لیکن جہاں جہاں اردو کے مناسب اور ہم معنی الفاظ مل گئے ہیں وہاں انہیں پوری طرح استعمال کیا گیا ہے۔ اس طرح عبارت کہیں بھی بو جھل نہیں ہونے پاتی۔

کتاب کے پہلے باب میں بر صغیر پاک و ہند میں صحافت کی ابتداء سے لے کر تقسیم ہندوستان تک کی صحافتی تاریخ ، مختلف

23

” صفحات پر لانے والا ”سیلف سنسر شپ“ کے لرزہ خیز شکنجے سے آزاد کرانے کا دعوے دار بھی ہے جو ملک و قوم پر ذ ہنی ، فکری اور جذباتی جمود کو طاری رکھتا ہے یا شعور اور آگہی کے ماخذ تک رسائی حاصل کرنے کا خواہاں نہیں ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر ختم کرنے کی بھی ایک فرصت یا مدت میں دو چار باقی رہ گئی ہیں۔ لیکن غم نہ ہو۔ مذکورہ ٹائٹل پر ہم نے بھی اکتفا کیا ہے۔ ایک طرف اگر یہ اخبار سلطان صلاح الدین پر اور اس کے ہا تھوں قبلعہ نما عیسائی فواج کا فتح ہونا، اگر چہ یرو شلم میں نوے برس غالب ملکیت کے حق کے کرنے والے بھی خاموش نہیں ہوئے۔ کتاب کا انتساب بھی ان صحافیوں کے نام ہے جنہوں نے آزادی اظہار کی مشعل کو روشن رکھا۔ منیر نیازی خود بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ در حقیقت ” صحافت پر لانے والا ”سیلف“ ملک کی تمام جامعات کے شعبہ ابلاغ عامہ کے نصاب میں شامل کیا جانا چاہیے۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ دن ضرور آئے گا۔ جب ضمیر نیازی کی نئی کتابیں جن میں سے دو کا رروار میں تذکرہ ہو جاتی ہے یعنی ” پریس انڈر سیج(Press under siege) اور ” دی ویب آف سنسر شپ (The web of Censorship) ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھائی جائیں گی۔ یہ اس بات کی علامت ہو گی کہ ہم نے اپنے شرط پامال سے سبق حاصل کر لیا ہے۔ اگر وہ دن نہ آیا تو بر بادی ہمارا مقدر ہے۔ لیکن گذشتہ نصف صدی کی صحافت کے نشیب و فراز کو دیکھنے اور پرکھنے سے جو کہنہ مشق اور بعد گہری مایوسی نہیں ہوئی۔ اور وہ کیوں مایوس ہوں کہ آج بھی ان جیسے اصحاب جہاں موجود ہیں۔ چند ہی سہی مگر موجود ہیں۔ اعلان حق میں خطرہ دارو رسن تو ہے لیکن سوال یہ ہے کہ دارو رسن کے بعد چند فون ہی حاصل تھیں ، خیر شراکت ختم ہوئے۔ الطاف حسین کو آٹے کی اجازت دی جائے اس لئے کہ الطاف حسین اجازت کے باجود بھی واپس نہیں لوٹیں گے۔ ایم کیو ایم کی موجودہ قیادت کو مکمل طریقے سے متحرک ہونے دیا جائے۔ بد دیانتی اور بربریت میں ملوث ایجنسیاں اور خفیہ اہلکار کراچی سے پلے منتقل کر دئیے جائیں تاکہ یہاں مکمل امن قائم ہو۔ یہ کراچی کی سیاسی اور سماجی زندگی کو فوری طور پر بحال کیا جائے اور کراچی کو معاشی اہداف اور تحفہ و تجارت کا گڑھ نہ بنیں سے ممکن ہے جب تک دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو گا یہاں کسی بھی سیاسی و سماجی زندگی بحال نہیں ہو سکتی اور اس کے بغیر کراچی کے لوگوں کو روزگار مہیا ہو نہ اُسکے کی تازہ ہوا پر ہی تبدیلی کا انحصار ہے۔ سیاسی اور سماجی زندگی بحال ہونے کے بعد سیاسی جماعتیں ٹھوس منصوبوں کے ساتھ میدان عمل میں آئیں اور نرے بازی کی سیاست کو ترک کر کے مثبت انداز نظر اختیار کریں۔ ضلائی انتخابات کا انعقاد کرایا جائے اور اقتدار اعلٰی کو ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے۔ شرم کی طفلی کی ماجروں کی صراحت ضروری ہے احساس تفاخر کا عذاب جسم و جاں چاہے پہلا ستم ہی کم کیا جائے۔ مگر ذکر ہنر نہیں یہ بھی تعلیم ہیں ان کی تاریخ اور ان کی روایات بھی قابل احترام ہیں۔ الطاف حسین اس وقت بھی صحافیوں کی قیادت کر رہے ہیں مگر ان کی قیادت ٹھوس سطح پر قائم ہے ریاستی مجبوری میں ایم کیو ایم کی شہرت میں مستقل اضافہ کر رہا ہے اور وہ بظاہر اس میں بلند سے بلند تر ہوتا جا رہا ہے بات طے ہے کہ عسکری اشرافیہ اس غبارے کو سر بلند رکھنا چاہتی ہے ۱۹۸۸ء سے ۱۹۹۱ء اور اب ۱۹۹۵ء تک کی بظاہر صاف نظر آتیں سے اس بھتے کی کئی جعلی چڑیا اڑائی اور مقتدر سیاسی رہنماؤں کے پاس ہے اور اس کا سیدھا سادھا حل یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کے خلاف تمام جعلی مقدمات ختم کئے جائیں۔ مہاجروں کو تنگ کرنے کا عمل فوری بند کیا جائے۔ پاکستان کا کوئی اخبار شامل نہیں تھا۔ تیسرا نمبر رونق، شرکت کوٹ کا وہ فیصلہ ہے جو اس نے فیل ججوں کی دائر کی ہوئی شریعت پٹیشن سابق جاب بہ پٹیشن تصویر کی توہین کے ریاستی قوانین بشمول پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈینینس کے خلاف داخل کی تھی۔ (Civil and Military Gazette) کے خلاف ۱۹۳۹ء میں شائع کیا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سول اخبارات میں کوئی