ایڈیٹر کی ڈاک
سہ ماہی “آج” پر تبصرہ !
میں ہفت روزہ دی فرائڈے ٹائمز کا باقاعدہ تحاری نہیں ہوں لیکن یکم مارچ کو ختم ہونے والے ہفتہ کا شمارہ میں نے آغا کی سپر مارکیٹ (کراچی) میں ایک نظر دیکھا تو اس میں میرے میگزین “آج” کے تازہ ترین شماره (سرائیوو سرائیوں) پر آپ مہربانی سے تبشرہ کیا تھا۔ چنانچہ میں نے ہفت روزہ دی فرائیڈے ٹائمز کو خرید لیا۔ یہ صرف اتفاق ہے کہ چار دن بعد آنا کی سپر مارکیٹ کو آگ لگ گئی۔ نے کمال مہربانی ۔
حوالے سے سرائیو پر شمار و خاص شائع کرنے کے لئے آمادہ کیا۔ مسلمانوں میں میری دلچسپی محض اس لئے نہیں کہ وہ میری طرحمسلمان ہیں۔ آپ نے اپنے تبصرہ میں مشورہ دیا ہے کہ پچھلے چند ہفتوں کے دوران چھنیا کے متعلق پاکستانی مسلمانوں میں نجس ابھرا ہے اس لئے چیچنیا پر “آج” کا شمارہ خاص آنا چاہئے اس سلسلے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایسا کوئی منصوبہ میرے زیر غور نہیں ہے۔
اجمل کمال – گلستان جوہر، کراچی
جواب
مجھے افسوس ہے کہ میرے تبصرے نے اجمل کمال صاحب کو اس قدر رکھ دیا ہے۔ میں نہیں کر سکتا کہ ان کی طرز تحریر کے بارے میں میری رائے معروضی ہے۔ شاید اوروں کو نہایت نا پسند ہو۔ میں عدم معروضیت کو ڈھال بنا کر بری الذمہ ہوتا ہوں۔ میں نے رسالے کو دوبارہ دیکھا ہے لیکن اغلاط پھر بھی ایسی نہیں کہ شمارے کو کوئی زیادہ ایمان پہنچا ہو۔ بوسنیا کے مسلمانوں کے ساتھ جو دوسری جنگ عظیم میں ہوا اس کا حال میں نے رابرٹ منسک کی رپورٹوں میں پڑھ رکھا تھا۔ نازیوں کے ہاتھوں ان کا قتل عام کم از کم ایک شہر میں ہوا تھا جہاں وہ بہت بڑی تعداد میں مارے گئے تھے۔ کرداتوں کے ساتھ ان کی دشمنی اپنی دنوں سے ہے۔ میں ہرگز ایک مثالی مبصر نہیں ہوں اور اجمل صاحب کے معیار پر پورا نہ اترنے پر قدرے نادم ہوں۔
خالد احمد
اسلام کی تقسیم
پاکستان میں ہمارے بزرگوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود فرقہ واریت زور پکڑ رہی ہے اور آئے دن شیعہ اور سنی افراد انتقامی ہلاکت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ دونوں کرتے علماء کے تسلط میں ہیں اور ملکی حالات کا صحیح اور اک کرنے سے معذور ہیں۔ افغانستان میں یہ تعریق ہمیشہ سے چلی آرہی ہے اور جنگ کے دوران بڑھ گئی ہے پاکستان ہمیشہ اپنے ہمسایہ اسلامی ممالک کے مقابلے میں زیادہ ارتقاء شدہ معاشرہ رہا ہے اور یہاں فرقوں کے درمیان سلوک مثالی رہا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے علماء اب نوجوانوں کو انتظام کا درس دے رہے ہیں۔ پاکستان کو بنائے باہی کا مرقع بن کر رہتا ہے۔ دوسرے اسلامی ممالک میں پیدا ہونے والے مسائل کو بھی اپنی مثال سے حل کرنا ہے ناکہ ان کی منفی مثال کو اپنانا ہے۔ سنی حضرت کا فرض ہے کہ وہ : تمام اقلیتوں کی طرف محمدلانہ نظر ڈالیں کر کچن طبقے کو ہدف بنانے کی بجائے اپنی پناہ میں لیں تاکہ پوری قوم میں مخاصمت کی جگہ رواداری اور برداشت کا جذبہ رواں دواں ہو جائے۔
مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ آپ کے تبصرہ نے مجھے مایوس کیا۔ تاہم یہ بات اپنی جگہ پر سچ ہے کہ آپ نے تبصرہ نهایت فیاضی سے کیا ہے۔ شاید اتنی زیادہ فیاضی سے کہ میں کمانے لگا۔ مجھے شبہ سا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کو تبصرہ کرنے سے پہلے میگزین پڑھنے کی فرصت نہ ملی۔ شاید ہی وجہ ہے کہ مثال کے طور پر آپ نے یہ سر ٹیلیکیٹ دے دیا کہ میگزین طباعت کی غلطیوں سے مبرا ہے۔ کاش یہ بات سچ ہوتی۔ آپ کے تبصرہ میں اسی نوعیت کی کچھ اور غیر صحیح باتیں بھی ہیں۔ مثلاً یہ کہ میں اردو کا “اچھا” ادیب ہوں۔ ( یہ بات میرے لئے خبر ہے۔) یہ کہ شمارہ خاص کے اکثر ادیب سرائیوو کے سیکولر غیر مسلم ہیں ( ان ادیبوں میں سے کچھ ادیب اتفاقا سربیا، کروشیا، فرانس، یو ایس اے، پاکستان، اٹلی، مقدونیہ اور دوسرے ملکوں کے ہیں۔)
تاہم تبصرہ کا سب سے بڑا ستم یہ ہے کہ آپ نے شمارہ خاص کی سب سے بڑی بات نظر انداز کر دی اور وہ بات میرے لئے بے حد مایوس کن ثابت ہوئی۔ بات یہ ہے کہ جزوی طور پر آپ کا انگریزی روزنامہ دی فرنٹیئر پوسٹ ” (لاہور) میں چھپنے والا انگریزی مضمون (سربیا کا ذہن پاکستان کا ذہن پڑھ کر میرے ذہن میں آخر کار یہ خیال آیا کہ سر بیا پر شماره خاص شائع کیا جائے۔ مجھے توقع تھی، اور اب بھی ہے کہ صاحب تمیز کاری یاده نادر تبصرہ نگار جو ابتدائیہ پڑھنے کی زحمت گوارا کرتا ہے) شمارہ خاص کو ” بوسنیا کے مسلمانوں کو خراج تحسین ” سمجھنے کی غلطی نہیں کرے گا۔ میرا خیال ہے کہ “آج” کا شمارہ خاص بوسنیا کے مسلمانوں کو خراج تحسین پیش نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ میگزین کے ۵۲۸ صفحات پر کوئی ایسی تحریر شائع نہیں ہوئی جو اس سادہ دعوی کا اثبات فراہم کرے کہ بوسنیا کے مسلمانوں نے نازی ازم کے دھاوا کی حمایت کی تھی اور اس معاملہ میں کروٹوں نے ان کا قتل عام کیا تھا اور ہاں، “آج” میں ایسی بھی کوئی تحریر نہیں کہ بوسنیا میں جو حالیہ نسل کشی ہوئی ہے وہ گذشتہ قتل عام سے پیوستہ ہے۔
آج ” کا شماره خاص بلتان کی کلی صورت حال کے تناظر میں بلتان کا بحران سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ لیکن بوسنیا کے مسائل پاکستان کی صورت حال سے مماثلت بھی رکھتے ہیں اور مختلف بھی ہیں۔ یہی بات تھی جس نے مجھے وطن عزیز کے
خلیل احمد – فیصل آباد