آئینے میں زیر تبصرہ کتاب ” آئینے میں“ دراصل منظوم ترجمہ ہے۔ اس منظوم ترجمے کے خالق ڈاکٹر سید محمد یحییٰ صبا میں موصوف اس سے پہلے بھی منظوم تراجم کے حوالے سے اہل علم و نظر سے داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ یہ کتاب جو اس وقت ہمارے پیش نظر ہے ”کلام منظوم ، حصہ نظم“ ہے جسے جناب یحییٰ صبا نے انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ یہ کتاب 1993ء میں شائع ہوئی تھی۔ کتابت اور طباعت عمدہ ہے۔ 72 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت درج نہیں ہے۔ مشرق مغرب کے ننے زیر تبصرہ کتاب ” مشرق و مغرب کے نغمے“ ڈاکٹر سید محمد یحییٰ صبا کی ایک اور خوبصورت کاوش ہے۔ اس کتاب میں موصوف نے انگریزی کی مشہور و معروف نظموں کو اردو کا جامہ پہنایا ہے۔ اس کتاب کے بارے میں معروف شاعر اور ادیب جناب مخمور سعیدی نے لکھا ہے کہ ” ڈاکٹر سید محمد یحیی’ صبا نے انگریزی نظموں کے منظوم تراجم کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ خوش آئند بھی ہے اور ان کی مستحکم شعری صلاحیت کا ثبوت بھی“ یہ کتاب 1994ء میں شائع ہوئی تھی۔ 72 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت بھی درج نہیں ہے۔ شام کا راہی زیر تبصرہ کتاب ”شام کا راہی“ دراصل ایک طویل نظم ہے جو کہ 50 حصوں پر محیط ہے۔ اس طویل نظم کے خالق ڈاکٹر سید محمد یحییٰ صبا ہیں۔ اس نظم میں موصوف نے زندگی اور موت کے فلسفے کو موضوع سخن بنایا ہے اور بات کو قاری تک پہنچانے کیلئے چھوٹی چھوٹی حکایتوں، قصوں اور پیرایوں کو استعمال کیا ہے۔ کتاب کی طباعت اور کتابت اطمینان بخش ہے۔ 1995ء میں شائع ہونے والی اس کتاب کی قیمت بھی درج نہیں ہے۔ کہا میں نے کہ اے جان جاں زیر تبصرہ کتاب ” کہا میں نے کہ اے جان جاں“ معروف شاعر اور ادیب جناب مخمور سعیدی کا مجموعہ کلام ہے۔ اس مجموعہ کلام میں موصوف کی غزلیں اور نظمیں شامل ہیں۔ مخمور سعیدی کا اصل نام سید محمد یعقوب ہے۔ وہ 31 دسمبر 1935ء کو ٹونک (راجستھان) میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ 1948ء میں دہلی آ گئے۔ یہاں انہوں نے ” ہمایوں“ ” ایوان“ ” آواز“ اور ” تہذیب“ کی مجلس ادارت میں بھی کام کیا۔ ان کی دیگر تصانیف میں ” سبز اندر سبز“ ” آواز کے جسم“ ” واحد متکلم“ ” آتے جاتے موسموں کی آہٹ“ اور ”سیاہ بر سفید“ شامل ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب 104 صفحات پر مشتمل ہے اور اس کی قیمت 30 روپے ہے۔ جہان دگر ڈاکٹر وحید اختر کا تیسرا مجموعہ کلام ” جہان دگر“ ہے۔ اس سے قبل ان کے دو مجموعہ کلام ” پتھروں کا مغنی“ اور ” شب کا رزمیہ“ شائع ہو کر اہل علم و نظر سے داد تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر وحید اختر یکم جنوری 1934ء کو اورنگ آباد (دکن) میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1962ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور 1963ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں فلسفے کے لیکچرر مقرر ہوئے۔ 1976ء میں انہیں پروفیسر کا درجہ دیا گیا۔ 1987ء میں اقبال انسٹی ٹیوٹ (کشمیر) میں وزٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا۔ زیر تبصرہ کتاب 128 صفحات پر مشتمل ہے اور اس کی قیمت 40 روپے ہے۔ کلیات اختر الایمان اختر الایمان ایک ایسے شاعر ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ان کی شاعری کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں ” گرداب“ ” سب رنگ“ ” تاریک سیارہ“ ” آب جو“ ” یادیں“ ” بنت لمحات“ اور ” نیا آہنگ“ شامل ہیں۔ اب جو کلیات ہمارے پیش نظر ہے اس میں ان کی وہ تمام نظمیں اور غزلیں شامل ہیں جو 1934ء سے 1965ء کے درمیان مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو چکی ہیں لیکن کسی مجموعے کی زینت نہیں بن سکیں۔ اس کلیات میں جو نظمیں اور غزلیں شامل ہیں ان کی کل تعداد 52 ہے۔ اس کلیات کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں وہ نظمیں ہیں جو 1934ء سے 1944ء کے درمیان لکھی گئیں۔ دوسرے حصے میں وہ نظمیں ہیں جو 1945ء سے 1954ء کے درمیان تخلیق ہوئیں۔ تیسرے حصے میں وہ نظمیں اور غزلیں ہیں جو 1955ء سے 1965ء کے درمیان لکھی گئیں۔ اس کلیات کی قیمت 50 روپے ہے۔ نئی زمین نیا آسماں زیر تبصرہ کتاب ” نئی زمین نیا آسماں“ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر جناب سید حامد کا سفر نامہ ہے۔ اس سفر نامے میں موصوف نے امریکہ میں منعقد ہونے والی اردو کانفرنس میں شرکت اور وہاں کے مشاہدات کو قلمبند کیا ہے۔ اس سفر نامے کا اسلوب اتنا عمدہ اور دلچسپ ہے کہ قاری اس میں کھو کر رہ جاتا ہے۔ اس سے قبل بھی موصوف کے کئی سفر نامے شائع ہو چکے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب 1997ء میں شائع ہوئی۔ 128 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 75 روپے ہے۔ نئی دنیا، پرانی دنیا کی یادیں زیر تبصرہ کتاب ” نئی دنیا، پرانی دنیا کی یادیں“ دراصل ایک سفر نامہ ہے جسے معروف ادیب اور شاعر جناب شمیم حنفی نے تحریر کیا ہے۔ اس سفر نامے میں موصوف نے امریکہ، کناڈا اور جرمنی کے سفر کے تاثرات کو قلمبند کیا ہے۔ اس سے قبل بھی موصوف کے کئی سفر نامے شائع ہو چکے ہیں۔ یہ سفر نامہ 1999ء میں شائع ہوا۔ 176 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 100 روپے ہے۔ ایک اور چاند کی رات زیر تبصرہ کتاب ” ایک اور چاند کی رات“ معروف ادیب اور شاعر جناب جوگندر پال کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں کل 20 افسانے شامل ہیں۔ ان افسانوں میں موصوف نے زندگی کے مختلف پہلوؤں کو موضوع سخن بنایا ہے۔ جوگندر پال کا شمار ان افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اردو افسانے کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا۔ ان کے افسانوں کا موضوع عام آدمی اور اس کے مسائل ہوتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب 1999ء میں شائع ہوئی۔ 188 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 100 روپے ہے۔
ایک سو ستتر صفحات میں مکمل باترتیب چھپی ہوئی ہے اور اس کتاب کا حجم پچاسی صفحات پر محیط ہے۔ آدی کی زندگی: پہلے پہل شاعرانہ کلام کی تعداد زیادہ تر وہ خواتین ہیں جو محض شاعری کی یارانہ اور سماجی موضوعات پر مبنی نظم و نثر شامل کیا کرتی تھیں۔ لیکن وہ خوش خیالی کی شاعری کا اندازہ جدت پسندی پر مبنی قدر و خیال سے جو نئے تخلیقی شاعری کی جدید بنیادوں پر فنی اور فکری کام پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ “باب تک تہذیب” نامی ایک مجموعہ بھی ان کے مشہور شعری کاموں کا حصہ ہے۔ جس میں ان نئی شاعرانہ تخلیقات کا ایک بہترین منظرنامہ پیش کیا جاتا ہے اور وہ کلام ایک بہت عمدہ اور نفیس انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔ یہ کلام خوش، عمدہ اور روانی سے بھرپور ہے۔ یہ ایک منفرد، عمدہ اور نایاب کتاب ہے۔ اس کا ہر ایک لفظ اور ہر ایک فقرہ معنویت سے لبریز ہے۔ افلاطون کی جنگ کو مختلف اور منفرد انداز میں بیان کرنے کے لیے استعارے اور تشبیہیں استعمال کیے گئے ہیں۔ یہ کتاب ایک شاندار اور بہترین کام ہے۔ یہ کتاب اس لیے اہم ہے کہ یہ انفرادیت اور نفیس انداز میں بیان کیے گئے منظرناموں کو معنویت دیتی ہے۔ دل کی دُھڑکن، ذہن کے خیال اور روح کی تلاش اس کتاب کے اہم موضوعات****ہیں۔ یہ کتاب فنی، فکری اور تخلیقی سطح پر ایک نایاب اور معیاری کام ہے۔ ادیب نے اس کو ایک جدید اور منفرد انداز میں پیشہ کیا ہے۔ تاریخ اور تہذیب کو ایک جدید اور نفیس انداز میں بیان کیا ہے۔ “عافیت کا نوحہ” نامی نظم بھی اس مجموعہ میں شامل ہے۔ جدت پسندی کی جدید تحریک کا اندازہ اس کتاب سے واضح ہوتا ہے۔ اس کتاب کا قیمتی اور تاریخی قیمت 134 روپے ہے اور اس کی مالیت 178 روپے ہے۔ افسوس کا موضوع اس میں منفرد اور جدید انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ منفرد اور جدید منظرناموں کی عمدہ اور نفیس ترتیب اس کتاب کو ایک منفرد اور بے مثال کام بناتی ہے۔ ادیب نے اس میں فنی اور فکری کام کو ایک جدید اور نفیس انداز میں پیشہ کیا ہے۔ منظرناموں کی تنوع اس کتاب کو ایک اہم اور بے مثال شامل کرتی ہے۔ تنقید اور تحقیق کے جدید اور منفرد معیارات اس کتاب میں واضح ہیں۔ “سفر در سفر” ناول اور “عافیت کا نوحہ” مجموعہ دونوں فنی اور فکری اعتبار سے اہم ہیں۔ یہ نظم بھی اس نئے انداز میں بیان کی گئی ہے اور یہ جدید شاعری کی ایک نایاب مثال ہے۔ جدت پسندی کے تنقیدی اور فکری معیارات اس میں شامل ہیں۔ یہ تنقیدی اور تحقیقی نظام کی جدید اور نفیس تفہیم کو پیش کرتی ہے۔ شاعر نے اس میں روایتی اور جدید شاعری کے اصولوں کو واضح کیا ہے۔ تحقیق اور تنقید کی جدید اور منفرد طریقہ کار اس میں شامل ہے۔ شاعر نے معاشرتی، اخلاقی اور روحانی مسائل کو جدید اور منفرد انداز میں بیان کیا ہے۔ یہ کتاب فنی، فکری اور تخلیقی معیار پر ایک بے مثال کام ہے۔ آخری تجربہ کے طور پر اس کتاب کو مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ یہ ایک جدید اور منفرد شاعری کی نمائندہ مثال ہے۔
