بوسنیا کی صورت حال ہے ایک ادبی دستاویز
“قومی آواز
نفتر وار ضمیمه ۲۳ جولائی
دلی دی
1990)
مسلمانوں کو پیش آنے والے تشدد کی تصویر پیش کی گئی تھی انھیں نظر انداز کر دیا گیا اس پر وپیگنڈے کے زور میں رجس کے رو سے سریوں کے علاوہ تمام لوگ جہنم رسید. کر دی گی کہ آندریا خود نسلی اعتبار سے ہونے کے لائق تھے، یہ بات بھی فراموش سرب نہیں بلکہ کروٹ تھا۔ یہ
100
امتیاز احمد .
سیاست ادب
جا رہی ہے۔ ہندستان میں بہ ظاہر بھا جیا بد قسمتی سے ہم اردو والوں نے جو طریقہ اور ان پر محور و فکر سے اخذ کیا ہے۔ یہ کے قدریں انسانوں کے مختلف نسلی، لسانے اور مذہبی گروہوں کے درمیان رواداری اور بقائے باہم کی قدریں ہیں۔ سرائیو و شہر کو خراج تحسین پیش کرنا دراصل انہیں قدروں پر دو ٹوک اصرار کرنا ہے ۔
ہندستان اور پاکستان دونوں ملکو، میں کم و بیش یہی داستان دہرائی اور اس کی دوسری متعلقہ تنظیموں کے ذریعے اور یہ باطن ان تمام تنظیموں کے دریو جو اپنے آپ کویت امی اور سیکور کہتی ہیں اور پاکستان میں بھاجپا کے COUNTERPART دانش اخذ نہیں کی جاسکتی اور یہ بھی کہ پروپگنڈے کا تو صرف حقائق کے محتاط COUNTER PART تنظیموں کے ذریعے یہ سب اپنے اپنے طور پر تاریخ کو توڑنے مروڑنے میں لگے ہوئے ہیں اور اس کے ہولناک انجام سے باخبر ہونے کے باوجود بلکہ شاید اسی وجہ سے بے خبر ہیں۔ ان کے پیش نظر اجمل کمال نے بڑی تعصب کی بات کہتی ہے کہ تاریخ کا استحصال حقائق کے اس احترام کے بالکل متضاد ہے جس کے پیر تاریخی واقعات کے مطالعے سے کوئی غیر جذبات اور معروضی جستجو کے متواتر عمل کے ذریعہ کیا جا سکتا ہے ۔
اجمل کمال کا اداریہ ایک اور مسئلہ سے بحث کرتا ہے ۔ اس بحث کے لئے اجمل کمال کو ہمارا سلام ہندستان کا سلام ان بائیں بازو کا سلام کہ پاکستان میں رہا کر وہ یہ جرات مندانہ قدم اٹھا سکے۔ ہلال کی علمبرداری سے کرنے والے اس ملک میں اسطرح کا نقطہ نظرانیان اجمل کمال کا ہی حصہ ہے ۔ کاش اصلیب اور تر شول کی علمبرداری کرنے والے کبھی کبھی اتنے معروضی ہوسکیں :
جارحیت اور بربریت کا شکار ہونے والے اس ایک اور اس کے عوام کے احترام کا پہا ہے تقاضا کر ان کی عوام کا ان کے
قصبوں پر، ہمارے ملک پر ، دار السلطنت دہلی ہے۔ اسی لئے برائیوں کو پیش کیے گئے اس خراج تحسین کی تحسین کے اس عمل کے ذریہ ہم بھی برائیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور ان اقدار کو جن کی سرائیو و علمبرداری کرتا ہے ۔ یہ صرف سرائیوں کو خراج تحسین ہی نہیں اپنی ضرورت کا احساس بھی ہے اور اپنی صورت حال کو سمجھنے کی کوشش
کو بھڑ کانے اور قائم رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ سربیائی تحریک نے بھی خطر ہے اور جون کے اس احساس کو تاریخ کے غیرمنطقی اور غیر معروضی تصور سے داعی حیثیت دینے کی کیا لیکن کردارادا کیا ہے۔ لیکن اس مہم میں قوم پرست ادیبوں ، دانش وروں اور محققوں کا کوشش کی۔ تاریخ کے اس استعمال کا فائدہ یہ ہے کہ چہار طرفہ مظلومیت کے احساس کے ساتھ ساتھ نسلی، قومی، مذہبی یا فرقہ دارانہ عظمت کا تصور مفت میں ہاتھ آجاتا ہاتھ آجاتا ہے اور خود کو در ترکیب میں خاص اور منتخب روز گار جاننے کی خوش نہیں انسانوں کے بیشتر گروہوں کے لئے ناقابل مزاحمت ترغیب ثابت ہوتی ہے ۔ اس پر ویگنڈے میں ذرائع ابلاغ نے کلیدی دانستہ یا غیر ابادی کردار بھی کم ہی نہں ہے “دوسری جنگ عظیم کے دوران لکھے ہوئے اپنے ملکہ والہ ناولوں THE THE BRIDGE ON THE DAINE THE WOMAN
اجمل کمال نے لکھا ہے ؟
کا ہے کہ مشرقی اور تھوڈوکس مسیحیت اور “سربیا کے پروپیگنڈے نے بھی یہیں نفرت انگیز کام کیا ہے اور اس میں جن عنام کو استعمال کیا ہے وہ ہمارے لئے بھی انہیں ہ ہمارے لئے بھی انہیں سطح پر باز نطینی باز نطینی تہذیب کو مغربی رومن کیتھوں اور پروٹسٹنٹ مسیحیت اور یورپی تہذیب اور پروٹسٹنٹ) مسیحیت اور یورپی تہذیب سے خطرہ لاحق ہے ۔ یہ موقف کروشیا کے خلاف جنگی جنون کو بھڑکانے کے لئے اختیار کیا گیا تھے اختیار کیا گیا تھا ۔ سال بھر بعد جب اور BOSNIAN STORY بوسنیا کو اس جارحیت کا ہدف بنایا گیا بوسنیا کو اس جارحیت کا ہدف بنایا گیا تو مشرکے تہذیب کے دشمنوں میں اسلامی بنیاد پرستی کا نام بھی شامل ہو گیا۔ کیسے مردہ میں جنگی جنون کو ہوا دینے کے لئے عموما خطر سے میں گھرے ہوئے ہونے کا خوف پیدا کیا جاتا ہے۔ یہ خوف کسی محمد یک حقیقی بھی ہو سکتا ہے لیکن معروض تجزیے اور ہوش مندانہ سیاسی اقدام یہ اور ہوش مندانہ سیاسی اقدام کے ذریعے اس کے حقیقی عوامل کو زائل کرنا نسل نسل پرستی پرستی پر پر مبنی مبنی کسی کی تحریک تحریک کا کا مقصد مقصد میں نہیں ہوتا۔ وہ اپنے مفادات کے لئے اس خون
میں جنہیں مجموعی طور پر دو stenoy کا نام دیا جاتا ہے اندراج نے (جسے 1941 کا نوبیل انعام ملا) بوسنیا کی تاریخ کے تین ادوار کا تخلیقی روپ پیش کیا ہے ۔ سر بیان پر ریگنڈے نے آندریج ( IVO ANDRIC) کی تحریروں میں سے وہ حصے اٹھا لئے جن میں ماضی میں بوسنیائی سریوں کو پیش آنے والے مصائب کا تذکر تھا اور انھیں سروں کی مظلومیت لہذا عظمت کی علامت بنا کر پیش کیا۔ آندا کی جن تحریروں میں سربوں کے ہاتھوں
ای حثیت حاصل ہے۔ ملک الناقدروں کو ان کے فقدان سے پہچانا مبلی ! جا سکتا ہے ۔ یہ ایک بنیادی حقیقت ہے کہ یہ شہر کسی واحد نسلی، لسانی ، مذہبی یا فرقہ وارا نہ گروہ کا مسکن نہیں ہے اور نہ یہاں کی آبادی میں مختلف گروہوں کے تناسب ار ای وای ای جدید شہری تہذیب کی آماجگاہ کی نمایان کیا کیا حیثیت حاصل ہوسکتی تھی اور یہ قدریں شہری زندگی کے دباؤ سے رفتہ رفتہ جڑیں بھی پکڑا رہی تھیں لیکن پھر پر وپیگنڈے اور بندوق کے ذریعے اس شہری آبادی پر فرسودہ قبائلی منطق نافذ کر دی گئی ۔ ن نافذ کر دی گئی۔ یہ فرسودہ اور تہذیب دشمن منطق کسی شخص کو اپنی ترجیحات اور شعور کی روشنی میں میں اپنا سیاسی یا معاشرتی نقطه نظر این کرنے کی آزادی نہیں دیتی کیسی مخصوص اسکی لسانی ، مذہبی یا فرقہ وارانہ قبیلے میں پیدا ہونے والے فرد کے سامنے صرف ایک حیمانہ انتخاب بات کر ہنے دیا گیا ہے ۔ تھیلے کا و نماد اس یا تعداد
کا ایک جھوٹ کے بادی سے ہم کو خاص یہ ہےکہ یہ خاص بات یہ ہے کہ یہ رسالہ پاکستان سے شائع کر ہوتا ہے جسے بزعم خود مملکت خداداد ہوتے خداداد ہوتے کا دعوی ہے۔ اس لئے حیرت بھی ہے اور حسرت بھی کہ ہم جو ایک سیکولر ملک کے شہری میں ایسا کیوں نہیں کر سکے اور ان لوگوں نے یہ کام کیسے کر لیے یہ کام کیے کر لیا۔ اداریہ میں اہل کمال نے لکھا ہے کہ کراچی کی طرف سے سرائیوو کو خراج تحی خراج تحسین ہے کیوں کہ :
کراچی کراچی سے سے زیادہ یہ باتیں خود ہم پر معارت آتی ہیں، تمہارے گاؤں پر ہمارا سے
زندگی گزارنے کا رائی طریقہ تو یہ ہے کہ اپنی اپنی جنتوں میں خوش رہا جائے۔ چاروں طرف سے آنکھیں بند کر لی جائیں اور اس سے کوئی سرد کار ہی نہ رکھا جائے کہ ہمارے گرد و پیش میں کیا ہورہا ہے اور کیا نہیں ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس جنت سے باہر نکل کر گرد و پیش کا جائزہ لیا جائے مسائل و معاملات کو سمجھا جائے اور اس کے مطابق زندگی گزار نے کی کوشش کی جائے۔
کار اپنایا ہے وہ اپنی اپنی جنتوں میں خوش رہنے کا ہے۔ شاید وباید ہمارے یہاں کوئی ایسا دوران پیدا ہوتا ہے جو بار کے جہنم زار میں بھی قدم رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور اس میں کامیاب وکامران اور سرخرود ہوتا ہے ورنہ اکثر کے ہاتھوں تو رسوائی ہی آتی ہے ان سب کے باوجود اقرار کے دور میں انکار اور انکار کے دور میں بجائے خود ایک خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ سولہ ہمیت تو اسے حاصل ہو ہی جاتی ہے۔
جن میں بلا مبالغہ لاکھوں لوگ مر رہے یا مارے جا رہے ہیں مارے جا رہے ہیں اور پچاس ہزار سے زائد عور میں ایسے بچوں کی مائیں بنے پر مجبور کی رہی جار ہی ہیں جن کی ولایت کے بارے میں وہ کچھ نہیں کر سکتیں ، پورے پورے شہر تباہ کئے جا رہے ہیں، لائبریریاں ، میوزیم تاریخی عمار میں اور ہر وہ تاریخی نقش ہیں وہ مزید لکھتے ہیں؟ سے کسی ایسی چیز کا پتہ معلوم ہو جس کا وجود آج کراچی میں اور پورے ملک میں ایک خاص ایک خاص طبقہ نہیں چاہتا ہے حرف غلط کی طرح مٹایا جا رہا ہے ۔ یہ سب فریادی ہیں ۔ خاموشی منظر کی خطابت کا جو ہر دکھا یہ ہے ہیں۔ لیکن جواب کون دے ہے کہ زبان و قلم کی آزادیاں آزادی کے نام پر قربانے نام پر قربان کی جا چکی ہیں سے
ڈھائی تین برسوں سے دنیا بوسنیا کی جنگ کا تماشا دیکھ رہی ہے اور خاموش ہے جیسے قوت گویائی سلب کر لی گئی ہو اور بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زبان اینک تیری ہے
جو باتیں ہو رہی ہیں و صلیب و ہلال کے دائرے میں گھومتی ہیں اور کوٹے فرزانہ ایسا نہیں جو ان سے اوپر اٹھ کر باتیں کر سکے۔ اس پس منظر میں شاید پہلی مرتبہ اردو کے ایک رسار نے ایک جرآت مندانہ قدم اٹھایا اور بوسنیا کے مسئلے پر ۵۲۶ صفحات کا ایک تنیم نمر سنجیدگی اور وقار کے ساتھ نکالا ہے ۔ یہ رسالہ ہے آج ” اجمل کمال کا آج ”
بوسنیا کچھ قیمتی انسانی قدروں کی اعلانیہ نمائندگی کرتا ہے اور سربیا کی نسل پرست فوجیں اور ان کی پشت پناہی کرنے والی حکومتیں انھیں اقدار کو بر ملا تباہ کرنے کے لئے بر سر پیکار ہیں ۔ یہ قدرین نام نہاد مشرک یا نام نہاد مغر کی پیداوار نہیں نہیں بلکہ بلکہ انسان انسان تہدیب تہذیب کیے نے انہیں انہیں اپنے اپنے طویل سفر کے دوران انسانی تجربات کا تجزیہ
آج ” جو NOWNESS کا علامہ ہے ، اس شمارے کے ساتھ اپنے اس دعوے کی دلیل بھی بن گیا ہے۔ یعنی آج صرف ادب ہی نہیں لکھا جارہا ہے ، شاعری ہی نہیں ہوں رہی ہے فکشن اری ہی تخلیق نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ ایسی ایسی خونیں جنگیں بھی ہو رہی ہیں
FROM SARJEVO
image97
