.
بوسنیا کی صورت حال پر ایک ادبی دستاویز
قدار کو حقائق کے تناظر میں رکھنے کے اہمیت رکھتا ہے کہ ہندستانی قاری بونیا بنیادی انسان خصوصیات نے ان کوشش کی جائے اور یہ کوشش صرف احترام کے اس دارالسلطنت سے اس کے ذریعے کے اس دارالسلطنت سے اس کے ذریعے کے اظہار کے لئے نہیں بلکہ آج کی دنیا میں بخوبی واقف ہو سکتا ہے حسین لکھتے ہیں اپنی صورت حال جاننے کے لئے بھی ضروری ہے ۱۲۴۰۰ میں عیسی ہے اسحا تو وچ نے ہو گئے ۔ کا تعین کرنے کے سارے پلانے ازکار رفتہ رجانات موجود ہیں وہ اس نئی صورت حال ہیں ہمارے ہاں چھتنے نمایاں فارسی کے کو کھنے کے اخبار سے بالا رودہ ثابت رہی ہوتے ہیں۔ مفہد اور سیاہ المشرق و مغرب اسلام اور کفر کی سادہ دلانہ درجہ بندی کی سادہ مدد سے اس پیچیدگی کو سمجھنا محال ہے جس مدد سے کو محال نے آج نیو ورلڈ آرڈر کے نام پر دنیا کا کہ دکھ ہے ۔ نام بھر پر تسلط حاصل کرنے کی خوں ریز ہم مردہ
حال میں ادیبوں کے ضمیر کے زندہ ہونے کی ما را یاری اور اپنے اپنے عالمی سطح پر انسانی درندگی سے شدہ صورت علامت بھی ہے ۔ جنوں کے سائے میں ایسٹ ڈر علامت 20ء ت بھی ہے۔ جنوری شروع میں ایمسٹر ڈیم میں عربی کہا یہ میں عربی کہانیوں کے سلسلہ الف لیلہ دلیلہ اپنی کہانی کہنے کی قوت کے ذریعہ بر سر پیکار کو ایک ایک سفاک بادشاہ کے ظلم سے لڑکی کی کامیابی کی داستان کے طور مطالعہ کرتے ہوئے اس کہانی کار عورت رلڑکی کے نام موسوم کہانی کہنے کے ایک ایسے سلسلہ نام سے موسوم کے کا آغاز کیا گیا جس کا مقصد سرائیوو کے معصوم عوام پر ہو رہے ظلم دستم کے خلافت احتجاج اور وہاں کے لوگوں سے ہمدردی کرتا تھا۔
ہر جمعہ کو یہ کہانیاں دنیا کے مختلف ممالک میں سنائی جاتی تھیں جن میں سے چند یہاں پیش کی گئی ہیں ۔
اپنی یہ ساری باتیں اپنی جگہ پر لیکن حاصل غزل تو برطانوی وزیر خارجہد گلس مرد کا یہ بیان ہی ہے جو انہوں نے بوسنیا پر دکھائی کی پابندیوں کو ختم نہیں کرنے کے جواز میں دیا تھا کہ پابندی میکے سے کیا میں ختم سے جنگ اور طویل ہو جائے ، جبکہ سربیا کو ان کا مال کیا جا رہا ہے جبکہ عربیا ہر طرح تعاون جاری رہا ہے عمری ہیم شرلی بنز
کلچرکی آفاقیت کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ : یر طویل اقتباسی قطعی قابل برداشت نہیں ہوتا اگر ہم ہند ہم ہم میں عیسی ہے اسحا تو وچ نے نہیں ہوتا اگر ہم ہندستانیوں کی معاشرتی رکھتا کہ خود ہمارے ہندستانی شہروں کا دریا صورت حال یہ اتنی زیادہ مماثلت نہ و نقشہ معلوم ہوتا ۔ لیکن یہی نہیں بعض معاملا میں وہ ہم سے آگے بڑھتے ہوئے بھی معلوم میں وہ ہم سے ان ہوئے ہوتے ہیں۔ سربیائی حملہ آوروں نے جس اسلامی بنیاد پرستی سے خطرے کا ہوا کھڑا کر لا لا لا لا لا کر کے اپنی عوام اور اپنے فوجیوں کو بھڑا گایا اور دنیا کے سامنے اس نسل کشی کا جواز پیش کیا اور ہے اس کا یہ عالم ہے کہ BOSNIA ASMORT ہے کہ MISTORY کے مصنف تو کل مالکم کے مطابق ۱۹۸۰ ء کی دہائے کے آخری برسوں می ا ء کی کے آخری برسوں ایک شہری علاقوں میں شرح تقریباً تیس فیصد ہو چکی تھی ہے وی پی کا گنوں جو نیر نے بے پی کا گنوں جو نیر نے بعض علاقوں میں اس شرح کے پچاس سی شرح کے پچاس فیصد تک پہنچنے کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس لئے جویر کے خیال میں یہ جنگ ہے جو یہ کے جن سے سے جو نقشہ ہے جنگ جمہوری عمل کے خلاف چھیڑے سے گئی ہے ہے۔ چھیڑے گئے آتا ہے وہ نہ خانہ جنگی کا ہے، نہ اسلامی بنیاد ہے متل ما رتوں کے اظہار کیا کہ یہ قدیم دیگر روی سلادیہ کے قدامت پسندوں اور اصلاح ہر آفاق پر از فتنه د شرمی بینیم. پسندوں کے درمیان پائی جانے والی کش کشش کی نمائیندہ صورت حال سے فائدہ اٹھا کردانی طور پر سر بیا کے ذریعہ بعض خاص مقاصد کے حصول کے لئے کئے گئے حملہ کی صورتال معلوم ہوتی ہے۔ اس کے لیے مربو مربوں نے گریٹر سر پیا اور اسلامی بنیاد پرستی سے سر بیا اور بنیاد سے خطرہ کے مرے اور نسلی افتخار کے جذبے کو استعمال کیا اور تاریخ کو توڑنے مروڑنے خطرہ کی کوشش کی ۔ تاریخ کے استحصال اور استیصال کے جو مختلف تھو تھے اس سلسلہ میں سامنے آتے ہیں ان کا من میں سامنے آئے ہیں ان کا مختلف مصنفین نے بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ بوسنیا نے سے کیا کی تباہی کے اس عمل میں اقوام متحد عمل متحدہ نے جو قابل فخر کارنامہ انجام دیا ہے اس پر اقوام متحدہ ختم ہو چکی ہے اور اقوام متحدہ کے ایک وفات نامہ کے عنوان سے بہت اہم مضامین شامل ہیں ۔
بی بی سی سی اے ایک ای سایت میں گھری ہوئی ہے۔ سکونتی مجھے شہر قلب سے چاروں سمتوں میں شعاعیں نکلت نقشے پر یوں دکھائی دیتے ہیں سے ایک جانب ہوں اس لا کر کر مسلمانوں کا محلہ دریا تنک واقع ہے دوسری جانب کیتھولک مسیحیوں کا محلہ لائیں لو کیا کا لو ہے، تیسری سمت میں اور تھوڈوکس مسیحیوں محلہ تاش لیان واقع ہے اور چوتھی سمت ری سمت میں اور بود میں یہودیوں کا محلہ ہے لا دے رہے ۔ است لاوے محلوں کے درمیان بیشترک میں تاش، درمیانت کاتا کواچی جیسی کئی چھوٹی چھے ٹی بستیاں اور ان میں سے ہر ایک بڑے محلوں کی طرح کوئی عقیدہ ، زبان کیا ہوں اور یہ زبان یا نازہ واحد ، یا ورواج رکھنے والوں سے آباد ہی تھا ورواج رکھنے والوں سے آباد ہے۔ کے بیرونی محیط شہر کا شہر کا مرکز جو انکے محلوں کے بیرونی محیط کھینچے پر سکونتی حملوں کو چار یا کہلاتا ہے سکونتی ملوں کو مال جاتا ہے، وہ ایک ایسا مقام ہے جو و تجھے رہنے کے دکانوں کے درجے کے لیے نہیں بلکہ کارگاہوں دوسری تجارت کے سرگرمیوں کے لئے مخصوص یہ علاقہ معمولی اعتبار سے بھی مرکزی ی علاقہ معمولی اعتبار سے بھی مرکزی حیثیت رکھتا ہے جیسا کہ باطنیوں کا کہنا ہے نئے کا مرکز ہیٹ کھلا ہوا ہوتا ہے تاکہ کی ہر ممکنہ شے کو اپنے اندر سمو سکے اور شیائیں دنیا سے جدا کرتے اور محفوظ حصار رکھنے والے حصاروں کے انا موجود ہے جو اس کے گرد و پیش کے دنیا تصاد رکھنے والے حصاروں کے اندر ہر وہ موجود ہے میں موجود ہے ۔ چار شنیا ہی وہ مقام ہے جہاں سکونتی محلوں کے جدا جدا کلچر اپنا آفاقی پہلو ظاہر کرتے ہیں۔ کیوں کہ یہی وہ ہے جہاں پر کلچرمیں مضمر آفاقی قدروں کی میں اس کی اولادوں اپنے اظہار کا موقع متا ہے اور یہ اظہار تجارت کے ذریعے سے ہوتا ہے جو اس دنیا وجود کو باقی رکھنے کا معاشی وسیلہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چار شیا ہی وا ساتھ چار شہا ہے وہ بھی ہے جہاں انسانی ہم اہنگی ، باہم کی انسانی ضرورت اور دوسروں قبول کرنے پر آماد کی کی قدریں نظر آتی ہیں۔ کی انسانی روی اور کی اس قبول کرنے آمادی کہ چار شیا کے لوگوں سے چاروں سمتوں آباد لوگوں کے ملنے جلنے بات چیت ، تعاون کرنے ، شانہ بہ شانہ وقت ، گذارنے کی جگہ ہے۔ بے لارے کے ہو دیوں ڈرائنگ کے مسلمانوں ، تامین لوک کے کروٹوں یا اطالویوں ، تا سلیمان کے مریدنی یونانیوں کی دوکا میں پر سلو بہ پہلو بھی ہوئی۔ یا یونانیوں کی دوکانیں پہلو بہ پہلو کھلی ہوئی ۔ وہ سب ایک دوسرے کی مرد کرتے ہیں، ساتھ کام کرتے ہیں، کاروبار میں مسابقت کام کرتے ہیں کاروبار میں مسابقت ہیں، کاروبار میں ہاتھ بٹاتے ہیں یا دیتے ہیں یا ان میں سے کوئی دو مل کر
بوسنیا کی صورت حال شاید اسے اور پیچیدہ نئی دنیا کے بعض پہلوؤں کو سمجھتے ہیں میں ہماری مدد کر سکے۔ اس شبہ میں نہیں کہ مغزال یوروپ ، امریکا اور روس رسم کہ مغزل امریکا اور رسم نے اس معاملے میں جو حکمت عملی اختیار کی اسلامی بنیاد پرستی کے پر خود ساخت نظر کا بھی رہا ہے جس کہ ایک اہم ہے حقیقت نگار انگریز کے ادیب کا کہنا ہے، کہا یہ خاصا آمد ہو ہے کہ یر تصور کرنا خاصا کارآمد ہو سکتا ہے کہ اگر بوسنیا کے لوگ مسیحی ہوتے اور سر بیا اور ہوگئے کے رہنے والے مسلمان ہو گئے محض نام کے مسکان ہے۔ ہی ہوتے تب حالات کیا صورت اختیار کرتے۔ کیا یورپ سربیا کے مسلمانوں کی کسی جانب سے کا لعدم ریاست کا ٹکٹ نے بڑے دنیا کالعدم کیا جانا برداشت کر لیتا ۔ اندازہ ہے چار رازہ ہے کہ یورپ اسے سہی لیکن اندازہ ہے کہ یورپ ا هرگز برداشت نہ کرتا ۔ اور اگر یہ اندازہ کے درست ہے تو پھر یہ بھی درست ہے کہ میں مسلمان کا لفظ سرائیو کی تقدیرسے یورپ کی بیگانگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ج کی کا ان
۔ کو وہاں لیکن جہاں تک بوسنیا کی جنگ کا جگہ تعلق ہے یہ عنصر اس میں بنیادی حیثیت کو نہیں رکھتا ۔ اس جنگ کو صلیب وہاں کا معرکہ قرار دینا بین دری نعرہ ہے جس سے میں جس سے سرب جارحیت پسندوں نے اپنے ہم قوموں لیکن کے جنگی ۔ فرقے ی جنون کو بھڑکایا ہے ۔ اس مفرد نے مقام کو قبول کرنا ہماں سے اپنے کوئی جنگی جنون ابلاغ کو مہمیز دینے میں کار آمد ثابت ہو تو ہوا ج کو کو کرنا ہمارے جنون نے اب کی دنیا کا کون سے مبنی بر حقیقت تصور قائم کیوں کے بر نہیں کیا جا سکتا ۔ اور اس تصور کی غیر میں موجوئی میں کوئی کار آمد نقطہ نظر اور قابل کرنے کوئی نظر اور کرنے عمل حکمت عملی مرتب کرنا بھی نا ممکن ہے۔ یوں تو نہ پر نظر شمارے کے ہر مقالہ ریب پر نگار نے سرا بو دیا کیا اصرار کیا ہے اور بوسنیا میں سر پول اور دوسری یا مغربی اور عیسائی ممالک کی جانب سے جاری ہیں سے نسل کتنی می کنی یا نسل خالصیت کی تحریک کو ایک ساتھ سیکار تہذیب کی موت سے تعبیر کیا ہے لیکن کرتے لیکن جواد قرا حسین ایڈیٹر IRAZ کا دھوکا دیتے ہیں یا ار ERAZ کا دھوکا ، تعاونی مضمون سرائیوو ایک دردار ہیں کاروبار میں تیسرے کے مقابلہ کرتے ہیں۔ اور تعاون شہر کا مرتبع ” اس اعتبار سے خاص طور سے یا تنازعے کے اس باہمی ربط کے ذریعے اپنی
امریکی فکشن نگار سوزن سونتال نے جنگ سے جو جھتے بوسنیا والوں کے لیے جیکٹ سے کونی جو کےلیے کیٹ کا ڈراما ” کو دو کا انتظار پیش کیا۔ انہوں اص طور سے بوسنیا والوں کے نے خاص طور سے بوسنیا والوں کے گودوں کا انتظار کی معنویت پر جو روشنی ڈالی ہے وہ بہت اہم ہے ۔ زلاتا فلو یو وچ ایک گیارہ سالہ بچی ہے جو اس جنگ میں پھنس ہونا ہے اس نے جنگ کے دنوں میں اپنی ڈائری جانے والا لکھی ہے۔ اس کے کچھ اوراق محمد خالد اختر نے ترجمہ اور انتخاب کر کے شائع کئے ہیں جو ۔ اور انتہائے دلچپ ہیں ۔ ایک اور اہم حصہ انتہا کے دیے شہر زاد ۲۰۰۱ ہے۔ یہ بھی سوزن مونتاگ کے حیرت مقداد قدم کی طرح ایک قدم ہے جو ہماری زندگیوں میں ادب کی – RELEVA NCE کو ظاہر کرتا ہے۔ یہیں نہیں یہ