یہ امر واقعہ ہے کہ کراچی کو مائکستان بنانے کی بہت بڑی ذمہ داری اہل سیاست پر عائد ہوتی ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس شہر میں ملک کا نظریاتی قبلہ درست رکھنے کے لئے فقید الثال تحریکیں چلیں جنہوں نے کراچی کے ( ثبت یا منفی) مزاج کا تعین کیا۔ مگر ” آج کا دامن ان کے تذکرے سے خالی تا ہے۔
مرتب نے کراچی کے جن پہلوؤں سے صرف نظر کیا ہے اس کی فہرست بنائے بیٹھیں تو وہ طویل ہوتی چلی جائے گی۔ مگر ر نومبر ۱۹۹۳ء کے واقعے کے ذکر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں، جس دن اس شہر کی آبرولٹ گئی۔ محمد صلاح الدین کہ اس حمد کی صحافت کا شیر تھے، تعمیر کا نائل طے کرنے کے دفتر سے اٹھ کر گھر جانے لگے تو انہیں دہشت گردوں نے شہید کرد شہید کر دیا۔ کراچی کی بدامنی کا بیان اس وقت تک مکمل ہو ہی نہیں سکتا جب تک اس قتل کا تذکرہ نہ کیا جائے۔ مگر کراچی کے داستان گو کو شائد اس واقعے کی خبری نہیں ہو سکی۔ گیلاس کے باوجود اس کہانی کو ایک مکمل کہانی سمجھا جائے ؟ بعد، جس کی سب سے بڑی سرخی تھی ” کر اپنی امن کی تلاش ”
کراچی کی کہانی کا یہ پہلو عمل ہو بھی کیسے سکتا ہے۔ جب کے اور ال ای کا محض اس وجہ سے اڑاتے ہوں کہ انہوں نے کراچی کے مسئلے کو مسلم تا مسلم ناظر میں کھنے کا جرم کیا اجمل کمال ان کے لئے اپنے تحریر کردہ تعارف میں لکتے ہیں۔
پر بعض تن آسان ادیب بھی کسی صور تحال کے بیان کے لئے ایسے استعارے استعمال کرتے ہیں جن کو حقائق سے کچھ سروکار نہیں ہو تی۔ ملا اردو کے ایک نامور ادیب انتظار حسین کا ظاہر خیال ہے کہ ۱۸۵۷ء کی بغاوت (۱۹۳۷ء کی جرت ۱۹۷۱ء کی تقسیم، عرب اسرائیل جنگ اور آج کا کراچی۔
دکھائی دیتے ہیں۔ عارف حسن وہ دانشور ہیں، جنہیں سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ کراچی کے شراب خانے منا کر اس شہر کا ثقافتی اثاثے تباہ کیا جارہا ہے۔ ہے مارے انتظار حسین کی منطق اجمل کمال کی سمجھ میں کیسے آسکتی ہے جنہیں اس عمر کے بیر وعارف حسن کی شکل میں
کراچی کی کہانی، ادھوری ہے ۱۹۹۱
مذاکرات
است اکتوبر
فاروق عادل
پہلا دارالحکومت بھی رہا ہے اس حوالے سے قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں بھی اس کا مسلمانوں کے حوالے سے ایک مسلم شخص بھی ہے۔ ” آج میں شائع ہونے والے بعض تذکروں میں یہ تو ملتا ہے کہ مسلمانوں نے تحریک پاکستان سے قبل اور قیام پاکستان کے بعد ہندو دوس سے کیسا سلوک کیا لیکن کسی تحریر سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ پاکستان جب نہیں بنا تھا اس وقت مسلمان کی ماں میں نے ہندو ساہوکاروں کے ہاتھوں مسلمانوں کی کیا گت بنتی تھی۔ تحریک پاکستان یہاں چلی تھی تو کیے چلی تھی اس میں کراچی کا کردار کیاتھا۔ تحریک آزادی کے بے بدل تاکہ مولانا محمد علی جوہر یہاں قدر کئے گئے اور ایم اے جناح روڈ کے ہر بھی خالق درین ہال میں ان کے مقدمے کی سماعت ہوئی تو ہل کر اپنی کار و عمل اس پر کیسا تھا؟ یہ دو شہر ہے جس میں مسلم پر صغیر کے قائد کے بنا یا ہم نے اپنے الماری عقیدت کے طور پر انہیں قائد اعظم کا لقب دیا۔ اس قائد کے بچپن کا کراچی کیسا تھا ، جب وہ ایک فقید المثال ملک کے بانی اور پہلے پہلے مثال ریاست مدینہ کے علاوہ اور کہیں دستیاب نہیں ہے مگر اور اگست ۱۹۴۷ء کے کراچی کی خبر اس کتاب سے دستیاب نہیں ہوتی۔ خو اس انتہا یہ اسی نے کراچی کے لئے کیا کیا یا پاکستان پایہ ؟ اس صدی تو کیا عالی تاری کا ایک ایسا منفرد واقعہ ہے جس کی
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اجمل کمال کا کام، کام نہیں ایک کارنامہ ہے اور ظاہر ہے کہ کارنامے ہر کوئی نہیں، کوئی ایک ہمیں سر انجام دے سکتا ہے۔ اس لئے میں اس کام کی داد دیتا ہوں اور اجمل کمال سے باقات نہ رکھنے کے باوجود ان کا سپاس گزار ہوں پراچی کی کمانی” کے دیا ہے میں لکھا ہے کہ ” سیاست اور صحافت سے مایوس ہو کر حقیقت حال کو جانے کی خواہش رکھنے والا ہر شعری تخلیقی ادیبوں سے رجوع کرتا ہے کیونکہ ان سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ سیاسی یا تجارتی مفادات سے بلند ہوں کے اور زندگی کے بارے میں کوئی دانش مندانہ اور انسان اور میں کو درست نقطہ نظر رکھتے ہوں گے لیکن یہ توقع عموماً پوری سیر کے لیکن یہ توقع عموماً پوری نہیں ہوتی۔ اردو ادب کی موجودہ حالت کے پیش نظر اردو کے ادبی رسا ادبی رسالوں سے بھی یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وادیوں کی ذات کرب یافت کا درد سیاستوار کر پیش کرنے سے آگے قدم کر پیش کرنے سے آگے قدم بڑھا کر ایسے موضوعات میں دخل دیں گے جو سیاسی جماعتوں اخباروں کی ملکیت سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم اس بات پر اصرار جانا چاہئے کہ ان موضوعات کو پیشہ ور سیاستدانوں اور صحافیوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ معاشرے کے حقائق کو جائے کی کوشش کرہ کسی ادبی رسالے کے منصب کا نہایت اہم حصہ کی کوشش کرہ کسی ادبی رسالے کے منصب کا نہایت اہم حصہ ہے۔ “آج” نے “کراچی کی کمانی ترتیب دے کر پورے انکسار کے ساتھ ہیں منصب ادا کرنے کی کوشش کی ہے اور اس شہر کی حقیقت دریافت کرنے کے راستے پر ایک قدم رکھا ہے” کراچی کی کہانی کو پورا پڑھنے کے بعد میری رائے یہ بنی ہے کہ یہ کراچی کی نامکمل کہانی ہے۔ گویا یہ کراچی کی ایک ایسی تصویر ہے جو جس کا مقوی دنیا کو صرف وہی رخ دکھانا چاہتا ہے، جو کر چچا ہتا ہوں ۔ رکھا جاتا ہے۔ کیا کتے ہوئے کی باتیں میرے پیش نظر ہیں، اور انا یہ اعختمانی لوٹے آج کے مرتب کی خدمت میں پایش
ان دو مخصیتوں کے درمیان اس بنیادی فرق کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی اگر دیکھا جائے تو اصل کمل کا کام تی نظر آتا ہے۔ دور نہ جائیں “آج” کے تازہ شماروں یعنی ” کراچی کی کہانی کی جلد میں ہی دیکھ لیں تو اس کی تصدیق ہو جائے گی۔
ان دو جلدوں میں مرتب نے کراچی کی ابتدا سے آج تک کی کہانی ایک خاص ترتیب کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ جوں جوں مطالعہ کرتے جائیں۔ اس شہر کے بارے میں بالو ہے جوں پر سر قائد ان اعظم کہلاتا ہے ایسا ہی معلومات ہمیں میں کہ پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے۔ مثلا بہت کم لوگ جانتے ہوں سے آرام پائے کا اصل نام رام باغ تھا۔ جس کی ہندومت میں بہت زیادہ نہ ہی اہمیت ہے۔ اس کے بارے میں لوگ رام ڈوڈ بجانے اپنے مضمون کراچی کے تیر تھے اور دوسرے مقامات ” میں انکشاف کیا ہے ۔ میں انکشاف کیا ہے تو جائیں میں ہنگلاج جانے کا ہوئے رام و الشمن اور سیتا نے یہاں بسرام کیا تھا اسی رعان رسیتا نے یہاں بسرام کیا تھا اس رعایت سے اس جگہ کو رام باغ کا نا دیا گیا۔ سیٹھ ہاؤس میں بوت چند کی اور ارداتیں پڑھ کر علوم ہوتاہے کہ وہ جو بعد می چل کر کیا شہر شہروں کا سر بھا، اس کی ابتدا کب اور کس طرح رکھی گئی۔ پھر جیسے جیسے زمان بیتا گیا، اس شہر میں جو جو تبدیلیاں آتی گئیں ان کے بہت سے پہلوان جلدوں میں ملتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ کراچی کی کہانی پڑھنے پڑھنے کے بعد قاری پر ایک نیا نیا کراچی کراچی منکشف ہو تا ہے تو یہ کوئی اس خلا کوئی نہ ہوگی۔ اجمل کمال نے کراچی کی کھائی مرتب کر کے اہل کراچی ، صحافیوں اور اہل تحقیق کو ایک ایسا گراں قدر تحفہ پیش کر دیا ہے جس کے لئے انہیں شاباشی بھی دینی چاہئے اور ان کا شکر گزار بھی ہوتا چاہئے۔ سنتے ہیں کہ اس کہانی کی پہلی دو جلد دستیاب نہیں ہیں اور تیسری جلد تیاری گے اور تیسری جلد بھی پہلے دو حصوں کی طرح کراچی کے بارے میں مزید جاننے کی خواہش رکھنے والوں کے لئے ستیاب نہیں ہیںاور تیسری جلد تیاری کے مراحل میں ہے کیے توقع کی جانی چاہئے کہ اس کے پہلے دو حصے دوبارہ شائع ہوں میں مرغوب ہوگی۔
کراچی صرف کسی ہندو تاجر کا بسایا ہوا شہر نہیں ہے ، جدید دنیا کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی اسلامی ریاست کا
اجمل کمال مجھے مترجم اور مرتب ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اچھے ادیب بھی ہوں مگر میری بد قسمتی کہ میری نظر سے ان کی کوئی طبع زاد تحریر نہیں گزری۔ البتہ ان کا ذوق ادب کمال کا ہے کوئی کمال کا کام انتقاد قیع تھا۔ ایک دہائی قبل انہوں نے “آج” کے نام سے ایک ادبی پرچہ نے مرتب کر کے شائع کردیا جس نے دیکھتےہی دیکھتے ارب شناسوں میں مقام پیدا کر لیا۔ وجوہات وہ تھیں۔ ایک کم قیمت اور دوسرے انتخاب کا اعلی معیار ۔ اس خوبی نے ” آج کو ان ادبی ے پر چوں کی صف میں لاکھڑا کیا جو اپنے نام اور مرتبین کی بھاری بھر کم شخصیت کے سبب ادب کا مستند حوالہ بن چکے تھے ، اجمل
ے ان کے کام کی وقعت اور مدیران ان کو دیکھتے ہوئے بعض جو لوگوں کا خیال ہے کہ ہمارے معاصر ادب میں اجمل دو سیم سے مارے معاصر ادب میں اجمل دوسرے کی مبیل کی طرح ابھر رہے ہیں۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ اجمل ا کیا شبہ ہے کہ اجمل محمد طفیل کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور ان کی طرح ہی محنت کر کے پڑھنے والوں کو “آج” کے ایسے یاد گار نمبر دے ے رہے ہیں جو آنے والے اور اس کے بعد بھی آنے والے برسوں میں حوالے کے طور پر اہمیت حاصل کریں گے۔ اجمل کمال — اجمل کمال کے آج کی تازہ پائیں ” کراچی کی کہانی کی دو جلد میں اس کی نہایت مناسب مثال ہیں۔ ” محمد
جمع و تدوین کے حوالے سے اجمل کو آج کا محمد علیل قرار دیا کوئی ایسی ملاذ بات بھی نہیں مگر دونوں کے فکر اور انداز فکر کا ئے تو اس میں تھوڑا سافرق نظر آتا ہے۔
محمد عقیل نے جب محمد عقیل سے محمد نقوش تک کا سفر کیا تو ان کی ماہیت قلب ہو گئی وہ جدیدیت پسندوں اور ترقی پسندوں کی صف سے نکل کر ” قدامت پسندوں کی جماعت میں شامل چکے تھے جسکا شورت دستاویزی نقوش کے دو نمبر میں جو دنیا میں ن ہی ان کی نیک نامی کا سبب نہیں بنے، توشہ آخرت بھی بھی بر بن گے۔ محمد طفیل کے ماہیتو قلب کی ابتدا محمد طفیل سے محمد اسے میں اب بازار میں ے نقوش تک کے سفر میں ہوئی۔ میں ان دونوں شخصیات میں دو ے دو سر اوہ سفر شروع کرہی نہیں سکا لین اجمل کمال ، اجمل کمال سے آج در ” (بروزین جرج ور نہیں بن سکے تندا مابیت قلب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بنیادی فرق ہے۔ جس سفر نے ایک کے دل کی دنیا بدل ڈالی کے دل