دور کی آواز
| تعداد | رعایت | رعایتی قیمت |
| 3 - 4 | 25% | ₨ 713 |
| 5 - 9 | 33% | ₨ 637 |
| 10 + | 40% | ₨ 570 |
فیروز اپنے وطن سے بہت دور ہیں مگر اس دوری کے باوجود نہ تو انھوں نے اپنی زمین سے قربت کا احساس ترک کیا ہے اور نہ اس کی خرابیوں اور خامیوں کو درگزر کیا ہے۔ اس اعتبار سے ان کی بالغ نظری قابل رشک ہے۔ ان کے اکثر معاصر دور دراز بسے ہوئے اہل وطن اکثر یا تو مغرب سے اس قدر مرغوب ہوجاتے ہیں کہ اس کی چمک دمک ہی میں کھو کر رہ جاتے ہیں اور وہاں کی زندگی کے درد و داغ و جستجو و آرزو تک نہیں پہنچ پاتے ، یا پھر اپنے وطن کی یاد میں بے قرار ہو کر اپنے وطن کی ساری خامیوں اور کمزوریوں کو بھی بھول جاتے ہیں یا ان پر یادوں کے دل نواز پردے ڈال دیتے ہیں۔ فیروز کی کہانیوں میں یہ سب نظر نہیں آئے گا، بلکہ انسان جس طرح ان کے اپنے وطن میں آباد ہے اور انسان جس طرح مغرب میں رہتا اور بہتا ہے، دونوں کے درمیان قدر مشترک کی ساری کیفیات کی آئینہ داری کی کوشش ملے گی اور پھر کسی قسم کے ذہنی یا جذباتی تحفظات کے بغیر ملے گی۔ اگر زندگی کی اس مجموعی دل دوز اجتماعیت سے (خواہ وہ فن ہی میں کیوں نہ ہو) کوئی نتیجہ نکلتا ہے تو وہی فیروز کی دریافت ہے اور میرے نزدیک اہم دریافت ہے، خصوصاً آج کل جب ہمارا افسانہ تیزی سے بھول بھلیوں میں گم ہوتا جارہا ہے۔
ڈاکٹر محمد حسن
افسانہ نگار ڈاکٹر فیروز مکر جی لندن میں مقیم اردو افسانہ نگاروں میں ایک خاص اہمیت کی حامل ہیں ۔ وہ لکھنو میں پیدا ہوئیں اور اب عرصہ دراز سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔ انھوں نے رتن ناتھ سرشار کی زندگی اور فن پر مقالہ لکھ کر یونیورسٹی آف لندن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ ان کا یہ مقالہ انگریزی اور اردو میں شائع ہوچکا ہے۔ فیروز مکر جی کے افسانے برصغیر سے شائع ہونے والے مختلف ادبی رسالوں میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ زیر نظر کتاب ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے۔ تحقیق و افسانہ کے ساتھ ساتھ وہ لندن کے ایک روزنامہ آواز میں کچھ عرصہ کالم بھی لکھتی رہی ہیں جو بڑی لچسپی سے پڑھے جاتے تھے۔ ایک زمانے میں انھوں نے لندن سے ایک رسالہ “جنبش نو” بھی جاری کیا تھا جس کی پیشانی پر “خواتین کا ادبی شمارہ ” لکھا ہوتا تھا۔ اس کا عصمت چغتائی نمبر خاص طور پر بہت مقبول ہوا تھا۔


تبصرے
ابھی تک کوئی تبصرہ موجود نہیں ہے۔